ورنہ بائیکاٹ.......؟ آج میں تھوڑا ماضی قریب پر بات کرونگا 2013 کے الیکشن میں ایک صحافی الیکشن کے بارے میں عوام کی عدالت میں گھوم رہا تھا صحافی نے بہت سارے انٹریوز کیے آخر میں ایک شاپنگ مال کی پارکنگ ڈیوٹی پر کھڑے نوجوان سے انٹریو لینے کیلئے اس کے پاس گیا.کالے رنگ والا یہ نوجوان کالی ٹوپی، ریڈ شرٹ اور عینک پہنے ہوئے اپنی ڈیوٹی پر کھڑا تھا،صحافی نے نوجوان سے الیکشن کے بارے میں سوال کیا نوجوان نے صحافی کو الیکشن اور پاکستانی سیاستدانوں کے بارے میں عجیب باتیں سنائی میں نے ان کی باتیں غور سے سنی اور علامہ اقبال کا وہ شعر یاد آیا کہ ... خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جن کو خیال اپنی حالت خود بدلنے کا میرے خیال میں شاید اب وقت آچکا ہے کہ پاکستانی عوام میں بیداری کی لہر اٹھ رہی ہے اس کی مثال اس نوجوان کے درد بھرے پیغام سے ہوتی ہے نوجوان نے صحافی کے سوال کا جواب دیا اور کہا....... اے ٹیم جا چکی، بی ٹیم کی تیاری ہے جب تک آپ اور میں اپنے طور طریقے نہیں بدلینگے جب تک ووٹ واشنگٹن سے ہوگا پاکستان سے نہیں، آپ کو لگتا ہے پاکستان میں کبھی الیکشن ہوا ہے،یہاں ہمیشہ سلیکشن ہوا ہے، آپ پھر بھی جارہے ہیں ایلکشن میں حصہ لے رہے ہیں، میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ میں کبھی نہیں کہتا کہ مجھے چینج چاہئے، کیونکہ شریعت اور قرآن میں چینج نہیں ہو سکتا مجھے وہ چاہئے جو میرے آئین میں لکھا ہے، اسمبلی میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے آئین کو اپنا بنایا ہوا ہے، عاصمہ جھانگیر نے اس آئین کو اپنا بنایا ہوا ہے، صفدر عباسی نے اس آئین کو اپنا بنایا ہوا ہے، دستور پاکستان کا آرٹیکل نمبر ون یہ کہتا ہے کہ یہ سلطنت خداداد پاکستان ہے مطلب یہ اللہ کی زمین ہے، اگر میرا گھر ہے تو میرا قانون چلے گا، آپ نے نویں جماعت کے معاشرتی علوم کا مطالعہ کیا ہوگا، جس میں جناح کے چودہ نکات شامل ہے، مگر آپ نظریہ پاکستان پڑھنا بھول گئے، جو منشور قرآن سے ہے، اگر پڑھا ہوگا تو عاصمہ جھانگیر اور طاھر القادری جیسے لوگ آپ کو اس سے کچھ اور نکال کر دیں گے،آپ کہو گے کہ وہ صحیح ہے، لیکن اصل میں جو صحیح ہے وہ قرآن اور شریعت ہے اور قرآن و شریعت میں چینج کبھی نہیں ہوتا، اسلئے میں چینج کبھی نہیں مانگتا، میں آپ کو بتاؤ "ووٹ کیا ہے ،ووٹ کیا ہے ووٹ نے تو فرعون کو بھی چنا تھا،ووٹ نے تو ہٹلر کو بھی چنا تھا، مگر میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی جمہوری ووٹ نے نہیں چنا،ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین کو کسی جمہوری ووٹ نے نہیں چنا، تو پھر ہم کیوں کہے کہ اس ملک کا حکمران اور قانون ووٹ کے ذریعے منتخب ہو، میرے نبی نے کہا اگر تمہارے کعبہ پر کوئی حملہ کرے، تو اس کا جواب دو،مجھے اقصی کے اندر نماز پڑھنا ہے کیا تمہارا قانون مجھے اقصی کے اندر نماز پڑھنے دیگا،میرا قبلہ اول ہے یھودیوں نے اس میں گھوڑے باندھے ہوئے ہیں میں کیا کروں، اگر لال مسجد کے اندر مشرف حملہ کریگا تو میں کیا کروں، اگر میرے گھر کے اندر کوئی آکے میری والدہ کو اٹھالے میں کیا کروں، میرا قانون اس کی اجازت دیتا ہے،آرٹیکل 62,63 اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ چیف جسٹس کو بھی چیک کرو، لیکن یہاں میں پارکنگ والا نوکر کھڑا ہوں یہاں کوئی سرکاری گاڑی آتی ہے تو کہتے ہیں یہ سرکاری گاڑی ہے، اس کو چیک مت کرو،یہ جو میرے آس پاس عوام کھڑے ہیں، یہ ٹیکس کے بیس تیس روپے دیتے ہیں، جس سے حکومت چلتی ہے ، سرکاری لوگ ٹیکس کیوں نہیں دیتے اس ملک میں تین قسم کے قوانین ہیں، آرمی کیلئے الگ قانون، سرکار کیلئے الگ قانون،اور ہم جیسے عوام لوگوں کا الگ قانون، اگر صوفی محمد ملاکنڈ ڈویژن کے یہ کہی کہ میں دستور کو نہیں مانتا، آئین کو نہیں مانتا، تو وہ ان کے نزدیک کافرٹھہرا، اس کو گرفتار کر لو،نظر بند کر لو اور اگر کوئی سیاستدان کہے کہ میں اس دستور کو نہیں مانتا،تو وہ الیکشن کا حقدار، مجھے بتائیں آپ کو کتنا لون(قرض) معاف کیا،مجھے کتنا لون معاف کیا،یہاں ہمارے سیاستدانوں کو اربوں روپے معاف، بلاول بھٹو زرداری کا تیس ارب روپے کا محل رائیونڈ میں بن رہا ہے، یہ پیسہ کس سے لیا ہے ملک ریاض سے ،ملک ریاض ایک کرپٹ آدمی ہے ایک کرپٹ آدمی ہمارے صدر کو پیسہ دے رہا ہے اور کہتا ہے کہ رائیونڈ میں محل بناؤ، آخر تم کس پاکستان کی بات کر رہے ہو، سن لو یہ یھودی سلطنت کے حکمران جن کی ڈوریں واشگنٹن اور نیویارک سے ہلائی جاتی ہیں، لندن سے ہلتی ہے کسی کی بھی پشاور کوئٹہ اور کراچی سے ڈوریں نہیں ہلتی، جس دن ان کی کعبے سے ڈوریں ملیں گیں اس دن میں ان کو سپورٹ کرونگا ورنہ بائیکاٹ...........! یہاں استاد المجاھدین مفتی شامزئی رحمہ اللہ کی ایک تقریر یاد آئی مفتی صاحب فرماتے تھے کہ اس آئین یاقرارداد مقاصد نے یا 1973 کے متفقہ آئین نے عمل کی دنیا میں ہمیں کیا دیا جگر نے کیا خوب کہا کہ واعظ کا ہر ایک ارشاد بجا تقریر بہت دلچسپ مگر آنکھوں میں سرور عشق نہیں چھرے پہ یقیں کا نور نہیں اسی آئین کی وجہ سےکیا پاکستان سے غربت ختم ہوئی،یہاں اسلام کس حد تک نافذ ہوا آپ سب کا یقین ہے کہ قیادت کی تبدیلی سے حالات کچھ بہتر ہونگے مگر جب تک امت کے اندر جذبہ جھاد بیدار نہیں ہوگا اور ظلم کو ختم کر کہ اسلامی نظام نافذ نہیں کیا جائے گا، تب تک قیادت کی تبدیلی سے کچھ نہیں ہوگا، امت کو نظام بدلنے کی ضرورت ہے. قارئین کرام....! موجودہ رائج کفری نظام جمہوریت اس ملک کیلئے ناسور ہے، ہمارا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہے، ہماری ثقافت، طرز زندگی،معاشی لین دین، شریعت مطھرہ کے مطابق ہے، اس معاشرے میں مغربی تہذیب کی کوئی جگہ نہیں بنتی، ہم نے اپنے آباء و اجداد سے اسلام، اخوت،ایثار ،حیاء اور جھاد کا درس حاصل کیا ہے،جبکہ موجودہ رائج کفری جمہوری نظام نے ہمارے معاشرے کو اخلاقی و نظریاتی طور پر مفلوج کیا ہے، جس کی وجہ سے، آج وطن عزیز میں بد امنی،بے حیائی،کرپشن اور مہنگائی کا طوفان آیا ہے،۔ موجودہ صورتحال سے نکلنے کا واحد حل، اللہ کی زمین پر،اللہ کے نظام کا قیام ہے، جس میں غریب و امیر اور حاکم و رعایا کو اس کا حق دیا جاتا ہے، اسلامی نظام ایک ایسا نظام عدل ہے، جو معاشرے کو بیلنس رکھتا ہے، جس کی وجہ سے لوگ پرسکون زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتے ہیں، مگر افسوس کہ مدینہ ثانی کا دعوی کرنے والی ریاست پاکستان میں اسلامی شریعت کے بجائے فرنگیوں کا کافرانہ نظام جمہوریت حاکم ہے .........! اخر میں وطن عزیز کے عوام کے نام ..... یہاں خوشبؤں کی رفاقتیں نہ تجھے ملی نہ مجھے ملی وہ چمن کہ جس پہ غرور تھا نہ تیرا ہوا نہ میرا ہوا وہ جو خواب تھے میرے ذھن میں نہ میں کہہ سکا نہ میں لکھ سکا کہ زباں ملی تو کٹی ہوئی کہ قلم ملا تو بکا ہوا کالم نگاہ بلند از مجاھد فیصل شھزاد
#nigah_e_buland #faisal_shahzad