Announcement

Collapse
No announcement yet.

তালেবান চুক্তির সেই সংশয়টির নিরসন (মূল উর্দু আর্টিক্যাল)

Collapse
This is a sticky topic.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • তালেবান চুক্তির সেই সংশয়টির নিরসন (মূল উর্দু আর্টিক্যাল)

    তালেবান চুক্তির যে ধারাটি নিয়ে এখনও অসংখ্য ভাই দ্বিধা সংশয়ে আছেন সেটি হল, আফগানের মাটি ব্যবহার করে আমেরিকার স্বার্থে আঘাত হানতে দেয়া হবে না।

    আর বাস্তবেও ধারাটি দিলে লাগার মতো।

    আমি বিগত এক পোস্টে বলেছিলাম এ ব্যাপারে স্বতন্ত্র একটি পোস্ট দেব। তবে বিভিন্ন কারণে সেটি আর হয়ে উঠেনি। তবে তালেবানদের অফিসিয়াল উর্দু ম্যাগাজিন ‘মাসিক শরীয়ত’ এর ১০১ সংখ্যায় তারা নিজেরাই এ সংশয় নিয়ে মোটামুটি বিস্তারিত একটি আর্টিক্যাল দিয়েছেন। মূল উর্দুটি এখানে দিয়ে দিচ্ছি। যারা উর্দু বুঝি তারা তো বুঝবোই। যারা বুঝি না, কোনো ভাই তরজমা করে দিলে তাদের জন্য সহজ হবে। তখন আলোচনা পর্যালোচনা ও কমেন্টে আরো অনেক বিষয়ই হয়তো পরিষ্কার হবে। আল্লাহ তাআলা তাওফিক দান করুন। আমীন

    دوحہ اور حدیبیہ کے دو معاہدے
    مفتی ابو سعید راشد

    ہجرت کے چھٹے سال ماہ ذی القعدہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سترہ سو صحابہ کرام کے ساتھ عمرے کی نیت سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔

    مکہ سے مدینہ کی طرف سفر کرتے ہوئے جب یہ لشکر عسفان پہنچا تو کفار نے ان کا راستہ روکا۔خالد بن ولیدجو اس وقت اسلام نہیں لائے تھے۔ دو سو افراد کے ساتھ آکر مسلمانوں کا راستہ روکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن یہیں پر گزارا اور رات کی تاریکی میں اپنے صحابہ کے ساتھ راستہ بدل کر ایک پہاڑی مغربی راستے کے ذریعے حرم کی حدود حدیبیہ پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ خالد بن ولید عسفان میں تھے اور جب مسلم لشکر کے جانے کی اسے خبر ہوئی تو بڑی تیزی سے دوسرے مشرکین تک یہ خبر پہنچائی۔
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوشش یہی تھی کہ حدیبہ کے راستے سیدھا حرم میں داخل ہوکر عمرہ ادا کریں لیکن حدیبیہ کی حدود میں پہنچتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی بیٹھ گئی اور آگے جانے سے انکار کیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گئے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہورہا ہے اور اللہ کو یہ منظور نہیں کہ اسلامی لشکر اس طرح مسلح حالت میں مکہ میں داخل ہو۔ اس میں ایک بڑی حکمت یہ تھی کہ اگر مکہ کے اندر جنگ چھڑ جاتی تو بہت سے ایسے مسلمان بھی مارے جاتے جو خفیہ طور پر اسلام قبول کر چکے تھے اور مسلمان انہیں پہچانتے نہیں تھے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی واپس پیچھے کی طرف مڑی ۔ حدیبیہ کے میدان کے آخر میں ایک کنویں کے ساتھ بیٹھ گئی ۔یہیں پر مسلمانوں نے پڑاو ڈالا اور یہی اس لشکر کی قیام گاہ ٹھہری۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی نے آگے جانے سے انکار کیا تو آپ نے فرمایا: آج میں قریش مکہ کی ہر اس بات کو ماننے کے لیے تیار ہوں جس میں شعائر اللہ [اللہ کے گھر] کا احترام ہو۔[ لا يسألوني خُطّةً يعظِّمون فيها حرمات الله إلا أعطيتُهم إياها]

    یہاں پر پڑاو ڈالنے کے بعد کئی دفعہ نمائندوں کے ذریعے رابطے ہوئے اور بالآخر کفار کا وفد سہیل بن عمرو کی سربراہی میں آیا اور صلح حدیبیہ کے نام سے ایک تاریخی معاہدے پر دستخط ہوئے۔ جب بات چیت اختتام کو پہنچی تو اس معاہدے کی تحریر کی نوبت آئی ۔ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ سب سے پہلے لکھو: " بسم اللہ الرحمن الرحیم"

    اس پر سہیل بن عمرو نے اعتراض کیا یہ نام[ الرحمن] ہم نہیں جانتے اس لیے صر ف یہ لکھو " باسمک اللھم" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اسی طرح لکھنے کا حکم دیا۔

    پھر نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اب لکھو: یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد رسول اللہ اور سہیل بن عمرو نے اتفاق کیا ہے ۔

    یہاں سہیل نے پھر اعتراض کیا کہ اگر ہم آپ کو رسول اللہ مان لیتے تو پھر آپ کو کعبہ جانے سے کیوں روکتے۔ رسول اللہ کی جگہ صرف محمد بن عبداللہ لکھا جائے جس طرح آپ پہلے لکھا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " میں اللہ کا رسول ہوں، اگر چہ آپ میری نبوت کو نہیں مانتے، لکھو محمد بن عبداللہ " ۔

    امام زہری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معاہدے میں مخالفین کی ہر بات کو اس لیے مانتے جارہے تھے کیوں کہ شروع میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ " آج میں قریش مکہ کی ہر اس بات کو ماننے کے لیے تیار ہوں جس میں شعائر اللہ [اللہ کے گھر] کا احترام ہو
    "
    اس تمہید کے بعد مندرجہ ذیل مادوں پر اتفاق ہوا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اسے سپرد قرطاس کرتے رہے:
    باسمک اللھم، یہ وہ تحریری ہے جس پر محمد بن عبداللہ اور سہیل بن عمرو نے اتفاق کیا ہے۔

    ۱۔
    دونوں جانب سے اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ دس سال تک جنگ بندی رہے گی، لوگ امن سے رہیں گے،چوری اور خیانت نہیں ہوگی اور ہمارے درمیان دوستانہ تعلقات ہوں گے۔

    ۲۔
    جو لوگ محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] کے ساتھ ہونا چاہتے ہیں وہ جاسکتے ہیں اور جو قریش کے ساتھ اس معاہدے کے تحت رہنا چاہتے ہیں وہ بھی آسکتے ہیں۔

    ۳۔
    جو شخص محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] کے ساتھ اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر مل جائے یا ان کے لشکر میں شامل ہوجائے تو ان کا فرض ہے کہ اسے واپس بھیج دے۔ اور جو شخص محمد[صلی اللہ علیہ وسلم ] کے لشکر سے نکل کر قریش کے پاس آجائے تو وہ اسے واپس نہیں بھیجیں گے۔

    ۴۔
    محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] اس سال اپنے ساتھیوں سمیت واپس مدینہ جائیں گے اور آئندہ سال مکہ آئیں گے۔ یہاں تین دن قیام کریں گے، مسلح ہوکر نہیں آئیں گے مگر ایک مسافر کی طرح ان کی تلوار میان کے اندر ہوگی۔
    سيرة ابن إسحاق(ص 462)(المغازي للواقدي(ص 98) سيرة ابن هشام(3/238]

    ۵
    ۔ قربانی کے جانور اس جگہ [حدیبیہ میں] ہی ذبح کر کے یہاں سے روانہ ہوں گے۔
    مصنف ابن أبي شيبۃ(20/403)برقم(37998)

    ۶
    ۔مکہ کے لوگوں میں سے کسی کو اپنے ساتھ نہیں لے جائیں گے اور اگر ان کے ساتھیوں میں سے کوئی مکہ میں ٹھہرنا چاہتاہو تو اسے [مسلمان] منع نہیں کریں گے۔
    مصنف ابن أبي شيبۃ(20/402)برقم(37996) عن البراء.

    ان تمام مادوں میں تیسرا مادہ مسلمانوں کو سخت ناگوار گزرا اور وہ اس پر کچھ افسردہ دکھائی دیے۔ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اتنا تبصرہ فرمایا کہ : جو لوگ ہم میں سے ان کے پاس جائیں گے اللہ نے اسے اپنی رحمت سے دور کیا، اور جو لوگ قریش کے ہمارے پاس آئیں گے اور ہم انہیں واپس بھیجیں گے تو اللہ ان کے لیے ضرور کوئی راستہ نکالیں گے۔
    مصنف ابن أبي شيبۃ (20/410)برقم(38006) عن المسور ومروان

    معاہدے کے گواہان:
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب معاہدے سے فارغ ہوئے تو دونوں جانب سے کچھ گواہان کے نام بھی معاہدے میں شامل کر لیے۔

    مسلمانوں کی جانب سے (1)أبو بكر بن أبي قحافہ، (2)عمر بن الخطاب، (3)عبد الرحمن بن عوف، (4)سعد بن أبي وقاص، (4)عثمان بن عفان، (5)أبو عبيدة بن الجراح اور (6)محمد بن مسلمہ۔جبکہ مشرکین مکہ کی جانب سے(1)حويطب بن عبد العزى، (2)مكرز بن حفص بن الأخيف کے نام گواہان کے طور پر معاہدے کے اوپر لکھ لیے گئے۔
    سيرة ابن إسحاق(ص 463)(المغازي للواقدي(ص 98) سيرة ابن هشام(3/238)

    جب معاہدہ تحریر کیا جاچکا تو تو سہیل بن عمرو نے کہا کہ اسے میں اپنے پاس رکھوں گا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا نہیں یہ میرے پاس رہے گا۔آخر میں اصل معاہدے کی متن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس رکھی اور اس کی ایک نقل تیار کرکے سہیل کے حوالے کی۔
    المغازي للواقدي( ص98

    معاہدے کے بعد سورۃ الممتحنہ کی دوسویں آیت نازل ہوئی اور خواتین اس سے مستثناء قرار پائیں۔ خواتین کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ ان کا مہر ان کے خاوندوں کے حوالے کیے جائے اور انہیں واپس نہیں بھیجا جائے گا۔

    تبصرہ:
    یہ صلح حدیبیہ کی اصل تصویر تھی۔ اگر ان مادوں اور ان سے ملحقہ باتوں پر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ مسلمانوں کے لیے ایک عظیم فتح تھی۔قریش جو مسلمانوں کو کبھی برداشت نہیں کر تے تھے اور جزیرۃ العرب میں ان ہی کی سرداری کا سکہ چلتا تھا اس لیے وہ دعوت اسلام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے تھے۔ اب جب وہ صلح پر آمادہ ہوئے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اب وہ مسلمانوں کی قوت کا اعتراف کر رہے ہیں اور مستقبل میں مقابلے کی سکت نہیں رکھتے۔

    دوسرا مادہ اس بات کی دلیل ہے کہ قریش اب اپنی دینی اور دنیاوی زعامت کھوچکے ہیں۔اب انہیں صرف اپنی فکر ہے۔اب اگر تمام لوگ اسلام میں داخل ہو بھی جائیں تو انہیں کوئی پروا نہیں۔ پہلا مادہ بھی اس عظیم فتح کی نشانی تھی، کیوں کہ جنگ مسلمانوں نے شروع نہیں کی تھی بلکہ قریش نے شروع کی تھی۔ جنگ بندی کا معاہدہ اس تکبر اور غرور کی انتہا اور اس بات کی دلیل ہے کہ جنگ جنہوں نے شروع کی تھی اب وہ کمزور ہوچکے ہیں۔

    چوتھے مادے میں اس بات کی وضاحت کی گئی تھی کہ یہ مسجد حرام سے مسلمانوں کو روکنے کی آخری کوشش تھی۔ اور وہ بھی صرف اسی ایک سال تک۔اس کے بعد پھر قریش میں یہ ہمت نہیں ہوگی کہ وہ کسی کو بیت اللہ جانے سے روک سکیں۔

    قریش تیسرے مادے کو اپنے لیے اہم کامیابی سمجھتے تھے لیکن یہ ایک معمولی بات تھی اس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جس میں مسلمانوں کے لیے نقصان ہو۔ کیوں کہ مسلمان جب تک اپنے دین پر قائم ہے وہ دین چھوڑ کر نہیں بھاگتا۔ اور اگر خدانخواستہ وہ مرتد ہوجائے تو پھر مسلمانوں کو ایسے شخص کی کوئی ضرورت نہیں۔اب اسلامی لشکر میں اس کے رہنے سے اس کا علیحدہ ہونا بہتر ہوگا۔

    اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنه من ذهب منا إليهم فأبعده الله. رواه مسلم . جو ہم میں سے ان کے پاس جائے گا اسے اللہ نے اپنی رحمت سے دور کر لیا۔اور جو شخص مسلمان ہوا اور اس کے مدینے آنے کے راستے مسدود تھے ، تو اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔ جس وقت مدینہ منورہ میں کوئی مسلمان نہیں تھا کیا اس وقت حبشہ میں مسلمان نہیں رہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ومن جاء نا منھم سیجعل اللہ فرجا ومخرجا۔ رواہ مسلم۔ جو لوگ ان میں سے ہمارے پاس آئیں گے، تو اللہ تعالیٰ ان کو نجات کا راستہ دکھائیں گے۔

    مندرجہ بالا اقدامات اگر چہ قریش کی ظاہری کامیابی کو ظاہر کرتی ہیں لیکن حقیقت میں یہ ان کی کمزوری اور ان کے کفری اتحاد کے زوال کا آغاز تھا۔جیسے ان کو علم ہوچکا تھا کہ ان کے اقتدار کا سورج غروب ہونے کے قریب ہے۔

    نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے قریش کو جو فوقیت معاہدے کے دوسرے مادے میں دی تھی کہ اگر کوئی مدینے سے مشرکین مکہ کے پاس آئے تو وہ اسے واپس نہیں بھیجیں گے اس کی وجہ یہ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھیوں پر پورا اعتماد تھا۔ اسی لیے اس قسم کی شرائط پر آمادہ ہوئے تھے۔ [ الرحیق المختوم۔ ص۔ 353]

    حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا موقف:

    صلح کی شرائط طے ہونے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ جلال میں آگئے۔ سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہا" کیا ہم مسلمان نہیں ؟ کیا ہم حق پر نہیں ؟انہوں نے جواب دیا " کیوں نہیں ہم مسلمان ہیں اور ہم ہی حق پر ہیں۔پھر پوچھا کہ کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول نہیں ؟ جواب ملا کیوں نہیں ، بے شک آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے آخری سوال کیا" پھر ہم کیوں دین میں ان کے سامنے اتنا انحطاط کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں؟ ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا" دیکھو عمر یہ فیصلہ اللہ کے رسول کا ہے اس میں ضرور کوئی حکمت پوشیدہ ہوگی۔ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی لاج ضرور رکھیں گے۔

    اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ سیدھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور وہی تین سوالات پوچھے جو ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں اللہ کا رسول ہوں ، اور اللہ میری بات ضائع نہیں کریں گے۔

    حضرت عمر رضی اللہ عنہ خاموش ہوکر روانہ ہوئے۔

    جب معاہدہ مکمل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف سفر کرنے لگے ۔ راستے میں ضجنان نامی مقام پر پہنچے تو سورۃ الفتح نازل ہوئی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بلایااور ان کے سامنے سورۃ الفتح کی تلاوت کی۔ حضرت عمر رضی اللہ نے دریافت کیا : یارسول اللہ یہ فتح ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: جی ہاں یہ فتح ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ خوش ہوئے۔

    حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے سابقہ موقف کے بارے میں بہت پریشان رہتا تھا کہ اس سے اللہ کی پکڑ میں نہ آوں اس لیے میں نے بعد میں عبادات ،صدقات بڑھادیے اور کئی غلام بھی آزاد کیے۔ ہم نہیں جانتے تھے بعد میں ہم پر یہ راز کھلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ کتنا مفید ثابت ہوا۔

    صلح حدیبیہ کے فوائد:
    امام زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اسلام میں حدیبہ سے بڑی فتح نہیں آئی۔ اس سے پہلے صرف جنگ ہوتی تھی۔
    جیسے ہی صلح ہوئی اور جنگ بندی کا اعلان ہوا لوگ امن وسکون سے رہنے لگے اب ان کو ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ لوگوں کی ایک دوسرے کے علاقوں میں آمد ورفت شروع ہوئی۔ مسلمانوں کو کئی لوگوں نے قریب سے دیکھا اور اسلام کی طرف مائل ہوئے۔ ہر وہ شخص جو تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھتا تھا ان سے جب اسلام کے بارے میں بات چیت ہوتی تو اسلام قبول کرلیتا۔دوسالوں میں گزشتہ کئی سالوں سے زیادہ لوگ اسلام کے دائرے میں داخل ہوئے۔ ابن ہشام کہتے ہیں کہ : زہری کے بات کی دلیل یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ تک بقول حضرت جابر رضی اللہ عنہ 1400 صحابہ کرام کے ساتھ تشریف لائے تھے۔ لیکن صرف دوسال بعد فتح مکہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار کا لشکر تھا۔
    [سیرۃ ابن ہشام۔ج۔3۔ص241]


    ابو بصیر کا قصہ


    معاہدے کے بعد ابوبصیر رضی اللہ مدینہ آئے تو مشرکین کو خبر ہوئی اور دو افراد کو ان کے پیچھے بھیج دیا کہ انہیں واپس مکہ لائیں۔ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے ابوبصیررضی اللہ عنہ کو ان کے حوالے کیا اورچلنے کو کہا۔ راستے میں وہ آرام کی غرض سے ٹھہر گئے، تو ابوبصیر نے ان میں سے ایک سے کہا کہ آپ کی تلوار بڑی خوبصورت ہے کیا میں اسے دیکھ سکتا ہوں ؟ اس نے تلوار ابوبصیر کے حوالے کی تو ابو بصیر نے تلوار سے اس شخص کو قتل کیا جبکہ دوسرا جو اس مقتول کا غلام تھا بھاگ کھڑا ہوا اور واپس مدینہ آیا ۔ عصر کا وقت تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ مسجد نبوی میں تشریف فرماتھے کہ یہ غلام سیدھا مسجد کے اندر گیا اور مدد کی درخواست کی کہ میرے ساتھی کو قتل کیا گیا اور اب مجھے بھی قتل کرنے کا ارادہ ہے۔

    اتنے میں ابو بصیر بھی پہنچ گئے ان کے پاس عامری کی تلوار تھی اور اس کے اونٹ پر سوار تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جب ان پرنظر پڑی تو فرمایا: یہ تو بڑا آگ لگانے والا شخص ہے ،اگر اس کے پاس کچھ آدمی ہوں۔ ابو بصیر نے کہا کہ یا رسول اللہ آپ نے تو معاہدے کے مطابق اپنا فرض ادا کرلیا لیکن میں خود کو بچانے میں کامیاب رہا۔ یہ رہی اس مشرک سے لی گئی غنیمت اس میں سے خمس الگ کریں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اگر میں اس غنیمت کو تقسیم کروں گا تو یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔آپ جہاں چاہیں جاسکتے ہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں پھر آپ کے پیچھے مشرکین کسی کو بھیج دیں۔

    بیہقی کے مطابق ابو بصیر پانچ اور ساتھیوں کے ساتھ جو مکہ سے آئے تھے مدینہ کے مغرب میں واقع ساحل سمندر کے ساتھ العیص نامی مقام پر گئے ۔ یہ شام اور مکے کے راستے میں واقع پہاڑی علاقہ ہے۔ یہاں جنگلات اور آبشاریں بھی ہیں۔یہاں انہوں نے اپنا معسکر بنایا اور کفار کے ان قافلوں پر گھات لگا کر حملے کرنے لگے جو مکہ سے شام کی طرف جاتے تھے۔ واقدی کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مکہ کے مسلمانوں کو خط بھیجاکہ مدینہ کی بجائے العیص نامی علاقے آتے رہے اور ابو بصیر کی مدد کریں۔

    ابو بصیر کے ساتھ مکہ اور ملحقہ علاقوں کے تقریبا تین سو افراد یکجا ہوئے۔ یہ سب یہاں رہتے اور ابوبصیر کی رہنمائی میں کفار کے قافلوں پر حملے کرتے۔آخر کار مشرکین مکہ ان حملوں سے اتنے تنگ ہوئے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنا ایک وفد بھیجا اور کہا کہ العیص سے مسلمانوں کو مدینہ بلا لیا جائے ہم معاہدے کی اس شرط سے دستبردا ہوتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر کو خط لکھا ۔ جب خط ان کے پاس پہنچا تو اس وقت سخت علیل تھے۔ ساتھیوں نے خط انہیں دیا وہ خط آہستہ آہستہ پڑھتے جارہے تھے کہ اسی اثناء میں ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ساتھیوں نے انہیں وہاں دفن کیا اور ان کی قبر کے ساتھ ایک مسجد تعمیر کی اور باقی ساتھی مدینہ منورہ تشریف لائے
    ۔[دلائل النبوۃ للبیہقی[ج۔3۔133] المغازی للواقدی/ص/109]
    معاہدہ دوحہ:
    بالآخر 19 سالہ طویل جنگ کے بعد امریکا امارت اسلامیہ کے ساتھ دوحہ میں معاہدہ کرنے پر مجبور ہوا۔امریکا کو پہلے سے ہی اپنی ناکامی کا یقین تھا۔لیکن کوشش ان کی یہ تھی کہ ان کے ہاتھو ں تشکیل پانے والی کابل انتظامیہ کو امارت اسلامیہ سے ایک حکومت کے طور پر تسلیم کروائیں اور پھر ان کے ساتھ ہی امارت اسلامیہ مذاکرات کےلیے بیٹھ جائے۔ لیکن ان کا یہ مشن ناکام ہوا اور بالآخر 29 فروری 2020 ء کو قطر کے دارلحکومت دوحہ شیراٹن ہوٹل میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے۔ جس میں امریکا نے اپنی ناکامی کا اعتراف اور افغانستان سے مکمل انخلاء کی یقین دہانی کروائی۔ اس معاہدے پر مسلمانوں کی جانب سے امارت اسلامیہ کے سیاسی رہبر ملا عبدالغنی برادر جبکہ امریکا کی جانب سے امریکا کے وزیر خارجہ مائک پومپیو کی موجودگی میں ان کے نمائندے زلمی خلیل زاد نے دستخط کیے۔ اس معاہدے کے اہم مادے یہ ہیں
    :
    ۱
    ۔امریکا سے متعلق: امریکا یہ عہد کرتا ہے کہ ،امریکا اور ان کے اتحادیوں کی تمام مسلح فوجیں،تمام غیر سفارتی عملہ،انفرادی سیکورٹی کے غیر مسلح افراد، فوجی ٹرینرز،مشیران اور بنیادی سروسز فراہم کرنے والے عملے سمیت اس معاہدے کے اعلان کے 14 ماہ کے اندر افغانستان سے نکل جائیں گے۔
    ۲
    ۔قیدیوں کی رہائی سے متعلق: امریکا اعتماد کی فضاء بحال کرنے کے لیے ایک اقدام کے طور پر تمام جانبین کی ہم آہنگی اور تائید کے ساتھ ایک ایسے پلان پر کام کرے گا جس میں جنگی اور سیاسی قیدی جلد از جلد رہا کیے جائیں گے۔5 ہزار امارت اسلامیہ کے قیدی جبکہ 1 ہزار افغان فورسز کے قیدی 10مارچ 2020ء تک رہاکیے جائیں گے۔ تاکہ 10 مارچ کو بین الافغانی مذاکرات شروع کیے جاسکیں۔دونوں فریق یہ عہد کرتے ہیں کہ اس کے بعد تین ماہ کے اندر باقی قیدی بھی رہا کیے جائیں گے۔ امریکا اس اقدام کی تکمیل کا وعدہ کرتا ہے۔امارت اسلامیہ یہ عہد کرتی ہے کہ ان کے رہا ہونے والے قیدی معاہدے کے مطابق امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سیکورٹی کے لیے خطرہ نہیں بنیں گے۔
    ۳:
    امارت اسلامیہ کے رہنماوں پر بین الاقوامی پابندیاں: بین الافغانی مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی امریکا امارت اسلامیہ کے رہنماوں کے خلاف امریکی پابندیوں، اور ان کے سروں پر مقرر کردہ انعام کے بارے میں دیے گئے نوٹفکیشن پر نظرثانی کرے گا اور یہ پابندیاں 16اگست 2020ء تک ہٹالی جائیں گی۔
    بین الافغانی مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی امریکا ، اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل اور اس کے اراکین افغانستان سے امارت اسلامیہ کے رہنماوں کے نام 17 مئی 2020 ء تک بلیک لسٹ سے نکالنے کے لیے سفارتی کوششیں کریں گے۔
    ۴
    ۔ افغانستان پر دوبارہ جارحیت نہ کرنے کی یقین دہانی: امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان کی زمین خودمختاری اور سیاسی خودمختاری کے خلاف فوجی اور سیاسی مداخلت نہیں کریں گے۔ اور نہ وہ افغانستان کے داخلی امور میں مداخلت کرنے کے مجاز ہوں گے۔
    ۵
    ۔امارت اسلامیہ سے متعلق حصہ: امارت اسلامیہ سے متعلق معاہدے میں چار باتیں ذکر کی گئی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ : طالبان امریکا کے لیے مستقبل میں خطرہ نہیں بنیں گے اور نہ افغانستان میں ایسے لوگوں کو آنے کی اجازت دیں گے جو امریکا کے لیے خطرہ ہوں۔ متن کے مطابق:
    ۱
    ۔ امارت اسلامیہ افغانستان اپنے کسی رکن یا القاعدہ کے کسی رکن کو اجازت نہیں دے گی کہ افغانستان کی سرزمین امریکا کے خلاف استعمال کرے۔
    ۲
    ۔ امارت اسلامیہ افغانستان ایک واضح پیغام جاری کرے گی جس میں کہا جائے گا کہ ہر وہ شخص جو امریکا کے خلاف ہماری سرزمین استعمال کرنا چاہتا ہو اس کے لیے افغانستان میں کوئی جگہ نہیں۔امارت اسلامیہ اپنے ارکان کو ہدایت دے گی کہ ان افراد اور تنظیموں سے تعلق نہ رکھیں جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سیکورٹی کو چیلنج کرتے ہوں۔
    ۳
    ۔ امارت اسلامیہ افغانستان معاہدے میں کیے گئے وعدوں کے مطابق افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سیکورٹی کے لیے خطرہ بننے والے ہر فرد اور تنظیم کی راہ روک لے گی۔ اس کی تربیت اور مالی امداد پر پابندی ہوگی۔
    ۴
    ۔ امارت اسلامیہ افغانستان یہ وعدہ کرتی ہے کہ وہ لوگ جو افغانستان میں پناہ لینا یا یہاں مستقل رہنا چاہتے ہیں ان کے ساتھ مہاجرین کے بین الاقوامی قوانین اور معاہدے میں بیان کیے گیے نکات کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔ تاکہ یہ لوگ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سیکورٹی کے لیے خطرہ نہ بنیں۔

    امارت اسلامیہ افغانستان، افغانستان آنے کے لیے کسی ایسے فرد کو ویزہ اور پاسپورٹ جاری نہیں کرے گی، جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی سیکورٹی کو چیلنج کرتا ہو۔


    اختتام:
    امارت اسلامیہ کی بین الاقوامی حیثیت اور مستقبل : ۔ امریکا اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل سے اس معاہدے کی روسے امارت اسلامیہ افغانستان کی بین الاقوامی حیثیت تسلیم کرے گی۔

    امریکا اور امارت اسلامیہ ایک دوسرے کے ساتھ مثبت تعقات کے خواہاں ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ بین الافغانی مذاکرات کے بعد ان کے تعلقات افغانستان کی نئی اسلامی حکومت کے ساتھ بھی مثبت اور برقرار رہیں۔
    ۲۔ امریکا بین الافغانی مذاکرات کے بعد نئی اسلامی حکومت میں تعمیرنو اور ترقی کے لیے معاشی امداد دے گا۔ اور افغانستان کے داخلی امور میں مداخلت کرنے کا مجاز نہیں ہوگا۔ معاہدے پر دستخط قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ۵/رجب /۱۴۴۱ھ بمطابق 29 فروری 2020 ء کو ہوئے۔

    گواہان: اس تقریب میں خطے کے تیس ممالک کے نمائندوں ، بین الاقوامی اور علاقائی تنظیموں کے ارکان نے شرکت کی جن میں امریکا، پاکستان، ازبکستان، انڈونیشیاء، ترکی اور ناروے کے وزرائے خارجہ ، افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اور یوناما کے سربراہ تادامیچی یامامتو، افغانستان کے لیے جرمنی کے خصوصی نمائندے مارکس پوٹزل ، برطانیہ کے خصوصی نمائندے گارٹ بائلی، روسی نمائندہ خصوصی ضمیر کابلوف اور قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد عبدالرحمٰن قابل ذکر ہیں۔

    تبصرہ:
    طالبان نے امریکا سے اپنے پانچ مطالبات منوالیے ۔جن میں ہر ایک کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ جن میں امریکی افواج کا انخلا اور قیدیوں کی رہائی سب سے اہم ہیں ۔ پابندیاں ہٹانے والا نکتہ بھی بہت قیمتی ہے۔ صرف یہ نہیں کہ پابندیاں ہٹیں گی بلکہ امریکا خود اقوام متحدہ کو اس بات پر راضی کرے گا کہ پابندیاں ہٹا لی جائیں۔ پہلی بات کا منوانا امریکا کی کھلی شکست کے مترادف ہے اور دوسری بات اس کی دلیل ہے کہ امارت اسلامیہ کے رہنماوں کو اپنی ذات سے زیادہ اپنے قیدی ساتھیوں کی فکر ہے۔ اور ان کی رہائی کے لیے ہر ممکن وسیلہ بروئے کار لارہے ہیں۔

    تیسری بات امریکا کی جانب سے ماضی میں اپنی غلطی اکا اعتراف ہے۔کیوں کہ جن طالبان رہنماوں پر ماضی میں اس نے پابندیاں لگائی تھیں اب ان کو دور کرنے کے لیے تگ ودو میں لگا رہے گا۔ یہ اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ اب اس کاغرور خاک میں مل چکا ہے اور مزید جنگ کی سکت نہیں رکھتا۔

    سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکا نے اپنی شکست کا اعتراف کیا، اسلامی حکومت کے وجود کو بھی تسلیم کیا،لیکن اسے فکر ہے تو اپنی جان کی ہے کہ اسے یہ باور کرایا جائے کہ یہاں سے اسے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔

    اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا افغانستان کی آنے والی مستقبل کی اسلامی امارت کو ایک مضبوط حکومت سمجھتا ہے، اس وجہ سے خوفزدہ ہے۔

    امارت اسلامیہ سے متعلق ذکر کیے گئے مادوں میں ایک بات تفصیل طلب ہے اور وہ یہ کہ معاہدے میں جہاں بھی امارت اسلامیہ کا نام آیا وہاں اس بات کا بھی اضافہ کیا گیا " امارت اسلامیہ جسے امریکا ریاست تسلیم نہیں کرتا بلکہ انہیں طالبان کے نام سے جانتا ہے"۔

    یہ بالکل صلح حدیبیہ کے اس مادے کا اعادہ ہے جس میں مشرکین مکہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک نام کے ساتھ " رسول اللہ " لکھنے کو قبول نہیں کیا اور کہا کہ صرف محمد بن عبداللہ لکھا جائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جو معاہدے کے محرر تھے اس انحطاط کے لیے راضی نہیں تھے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان سے کہا کہ میں اللہ کا رسول ہوں اگرچہ وہ ہمیں نہیں مانتے ۔ لکھو محمد بن عبداللہ ۔

    ایک اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ " افغانستان میں ہر شخص کا داخلہ ممنوع ہوگا جو امریکا کے لیے خطرہ ہو"۔

    یہ بات اپنوں پر بھاری اور شاید اپنوں کی طرف سے اعتراض کاسبب بنے۔

    ہم نے صلح حدیبیہ کے تمام مادوں کا ذکر کرلیا ہے ۔ ان میں سے ایک مادہ تقریبا اسی طرح ہے۔ حتی کہ وہ اس مادے سے بھی زیادہ سخت اور بھاری محسوس ہوتا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ : اگر کفار کی جانب سے کوئی مسلمانوں کے پاس آئے گا تو مسلمان اسے واپس بھیج دیں گے اور اسے اپنے یہاں قیام کی اجازت نہیں دیں گے۔ اور اگر کوئی شخص مسلمانوں میں سے کفار کے پاس جائے گا تو کفار اسے واپس مسلمانوں کے پاس نہیں بھیجیں گے۔

    یہ بات اس وقت بھی مسلمانوں کے لیےباعث تعجب تھی لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں مختصر تبصرہ کیا اور فرمایا: جو ہم سے ان کے پاس جائے گا وہ اللہ کی رحمت سے دور ہوا۔ اور جو شخص ان میں سے ہمارے پاس آئے گا تو اللہ ضرور ان کے لیے کوئی راستہ بنائے گا۔

    بعد میں ابوبصیر رضی اللہ عنہ اور اس کے ساتھیوں نے ثابت کیا کہ مدینہ سے باہر بھی مسلمان زندگی گزار سکتے ہیں۔ بلکہ ابو بصیر کا معسکر اتنا مضبوط ہوا کہ بعد میں کفار حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کرتے رہے کہ ابوبصیر اور ان کے ساتھیوں کو مدینہ بلا لو ہم اس مادے سے دستبردار ہوتے ہیں۔

    یہاں بھی تاریخ خود کو دہرائی گی۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ دنیا کے مسلمان ، اسلام پسند تحریکوں کے افراد صرف امارت اسلامیہ کی کامیابی پر آراام سے نہیں بیٹھیں گے بلکہ دنیا کے ہر کونے میں جہادی معسکرات کا آغاز ہوگا۔ اور ابوبصیر کی طرح کئی دور دراز علاقے عظیم جہادی معسکرات میں تبدیل ہوجائیں گی۔جہاں سے آزادی اور اسلامی نظام کے نفاذ کی تحریک چلے گی۔جس سے دو فائدے ہوں گے۔ پہلی یہ کہ اسلامی اور جہادی تحریکوں کے نام پر کئی محاذ کھلیں گے۔جس کی وجہ سے کفری اتحاد کی توجہ تقسیم ہوگی۔ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ امارت اسلامیہ افغانستان پر بیرونی دنیا کا دباو کم ہوجائے گا۔ اور افغانستان ایک اسلامی ماحول میں جلد ترقی کر جائے گا۔


  • #2
    আল্লাহ্ ভাইদেরকে বাংলা অনুবাদ করতে সাহায্য করুন আমীন।

    Comment


    • #3
      মাশা আল্লাহ, উপকারী পোস্ট। বারাকাল্লাহু ফিকা। আমীন
      মুহতারাম ভাইয়েরা- যারা উর্দূ বুঝি, তারা কেউ অনুবাদে এগিয়ে আসতে পারি, ইনশা আল্লাহ।
      তাহলে সকল ভাইদের বুঝতে সুবিধা হবে এবং আপনি সবার দু‘আ পাবেন, ইনশা আল্লাহ।
      আগ্রহীরা সাড়া দিতে পারেন। শুকরান
      “ধৈর্যশীল সতর্ক ব্যক্তিরাই লড়াইয়ের জন্য উপযুক্ত।”-শাইখ উসামা বিন লাদেন রহ.

      Comment


      • #4
        আল্লাহ তা‘আলা আপনার মেহনতকে কবুল করুন। আমীন
        আশা করি কোন ভাই অনুবাদে এগিয়ে আসবেন...
        ‘যার গুনাহ অনেক বেশি তার সর্বোত্তম চিকিৎসা হল জিহাদ’-শাইখুল ইসলাম ইবনে তাইমিয়া রহ.

        Comment


        • #5
          অনেক সময় খরচ করে পড়েছি । মোটামুটি ভালো লেগেছে । তারপরও মনের মধ্যে কেমন যেন লাগছে । কারণ এটা কতটুকু হুদায়বিয়ার সাথে তুলনা করা যাবে । এটা নিয়ে কেমন যেন লাগছে ।
          "জিহাদ ঈমানের একটি অংশ ৷"-ইমাম বোখারী রহিমাহুল্লাহ

          Comment


          • #6
            কোনো ভাই যদি উর্দু আর্টিক্যাল টি বাংলা অনুবাদ করে দিতেন তাহলে অনেক উপকার হত,ইনশাআল্লাহ।
            ’’হয়তো শরিয়াহ, নয়তো শাহাদাহ,,

            Comment

            Working...
            X