جشنِ آزادی یا غلاموں کی غلامی
تاریخی شواہد کے مطابق ہردور میں علماۓ حق نے اُمّت ِمحمدیہ کوباطل کی ہر قسم کی غلامی سے آزاد کرانے کی خاطر ایک فیصلہ کن جنگ لڑی ہے ، پہلی صدی ہجری سے لے کر پندرھویں صدی عیسوی تک اُمت کے یہ سپوت آزادی کی خاطر اپنے خون سے وہ داستانیں رقم کر چکے ہیں جو تاقیامت مسلم اُمت کو آزادی کا درس دیتی رہیں گی۔ یہ داستاں سالارِاعظم ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی طاغوتِ اکبر کےخلاف جہد و قتال کی صورت میں ہو یا آپ کے بعد خلفائے راشدین رضوان اللہ علیھم آجمعین کی اپنے دور میں اسلامی آزادی کی خاطر پیہم کاوشوں کی صورت میں ہوں ، چھٹی صدی میں فرنگیوں کے خلاف عزالدین بن عبد السلام کا اعلانِ بغاوت کی صورت میں ہو یا ساتویں صدی کے شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ کا تاتاریوں کے خلاف علمِ جہاد بلند کرنے کی صورت میں ہوں ، اور دسویں صدی کے مجدد شیخ احمدسرہندی کا وقت کے ظالم بادشاہ اکبر کے خلاف آوازِ حق بلندکرکے اسلام کو ایک نئی نشاة بخشنے کی صورت میں ہویا ۱۸۵۷ء کی آزادی میں علماۓ حق کا اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے مسلمانانِ ہند کو انگریز کی غلامی سے نجات دلانے کی صورت میں ہو،غرض !ہر دور میں اہلِ حق حضرات نےمسلم اُمہ کی گردنوں کو باطل کی غلامی کے قلادہ سے آزاد رکھا ہے، کیونکہ یہی قلادہ اس خوددار اُمت کی راہِ آزادی میں رکاوٹ کا سبب بنا رہا ہے ۔ قرآنی رموز کی روشنی میں باطل کی آزادی صرف اور صرف انسانوں کی غلامی پر یقین رکھنے کانام ہے ، چنانچہ ارشادِ باری تعالی ہے ! واذا قیل لھم اتبعوا ما آنزل اللہ قالوا بل نتبع ماآلفینا علیہ آباءنا،آولو کان آباءھم لا یعقلون شیئا وَّلا یھتدون ترجمہ : اور جب ان (کافروں )سے یہ کہا جاتاہے کہ اس کلام کی پیروی کروجو اللہ نے اُتاراہے ،تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں!ہم توان باتوں کی پیروی کریں گے جن پرہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے ۔ بھلا کیا اس صورت میں بھی (ان کو یہی چاہیئے )جب ان کے باپ دادے (دین کی)ذرا بھی سمجھ نہ رکھتے ہوں، اور انہوں نے کوئی (آسمانی )ہدایت بھی حاصل نہ کی ہو؟ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ آیت یہود کے اس گروہ کے بارے میں نازل ہوئی، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت دی، لیکن جواب میں اس گروہ نے کہا ہم اللہ کی شریعت واسلام کو قبول کرنے والے نہیں، بلکہ ہم تو اُسی ملتِ باطل کی پیروی کریں گے، جس پر ہمارے آباؤاجداد چل کر حيوانى صفات كے مصداق ٹہرائے گئےہیں۔ آج پاکستان قوم کی اکثریت (بشمول سیکولر علماءکے) دین ِ الہی کو ٹکراکر جشن ِآزادی کے نام پر اپنے اُن آباءکی غلامی کو دہرارہے ہیں جنہوں نے 'sir'اور قائد جیسےفرنگی القابات کی خاطر چھ لاکھ علماء کرام کواذیت کے مختلف راستوں سے گذار کر موت کے گھاٹ تو اُتاردیا، لیکن وطنِ عزیز (پاکستان)میں قانونِ الہی کو جگہ نہ دی، کیونکہ اگر قانونِ الہی کو جگہ ملتی تو فرنگیوں کے عزائم کبھی پورے نہ ہوتے(جن میں پاکستان کی سرزمین پر لاالہ الا اللہ کی جگہ لا الہ الا الطاغوت کا قیام تھا )اور ان عزائم کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے والوں میں سرِ فہرست محمد علی جناح تھے، جن سے قیامِ پاکستان کے چھ ماہ بعدپوچھا گیا کہ جناب !ملک تو لاالہ الا اللہ کے نام پر بناتھا لیکن اب تک یہاں اسلامی قانون کی تنفیذ تو دور کی بات تصور بھی نہیں پایاجارہا،تو جواب میں کہنے لگے کہ ہمارےپاس برطانوی قانون کے علاوہ کوئی دوسرا شرعی قانون نہیں تھا گویا عہدِرسالت میں رائج قانون ِالہی اس غلام کے نزدیک کوئی قانون ہی نہ تھا اور نہ ہی حضرات خلفائے راشدین کے دور میں نافذ اسلامی نظام اس غلام کے نزدیک مسلم تو کیا پوری انسانیت کے واسطے قابل تقلید تھا ~ تیرا وجود سراپا تجلئ افرنگ کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر مگر یہ پیکرِ خاکی خودی سے ہےخالی فقط نیام ہے تو ،زرنگار و بے شمشیر آج قرآن کی اس آیت ومثل الذین کفروا کمثل الذی ینعق بمالایسمع الادعاء ونداءً ،صمٌ بکم ٌ عمی ٌ فھم لایعقلون کا مصداق ٹہرتے ہوئے قوم کی اکثریت جشنِ آزادی میں مگن ہے (جو درحقیقت بدترین غلامی کی بھیانک تصویر کشی ہے )جس میں اسلامی نظام کی جگہ کفری یعنی جمہوری نظام کو رائج کرنا بھی آزادی اور اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے والوں کو پابندِ سلاسل کرنا بھی آزادی ہے،اپنی قوم کی عفت مآب بہنوں کو کفار کے حوالہ کرنا بھی آزادی ہے اور کفار کے اشاروں پر حاملینِ قرآن کو قتل کرنا بھی آزادی ہے ، دین کی نشرو اشاعت کے سلسلہ میں مساجد و مدارس کو مسمار کرنا بھی آزادی اور ان کے دفاع میں اُٹھنے والی جماعتوں کو فاسفورس بموں سے جلاکر بھسم کرنا بھی آزادی ، روشن خیالی کے نام پر فحاشی و عریانی کو فروغ دینا بھی آزادی اور اس آزادی کو خلافِ شرع قراردینے والوں کو دقیانوسیت جیسے برے القابات سے نوازنا بھی آزادی ،تعلیم کے نام پر باطل نظریات کو جنم دینا بھی آزادی اور ان نظریات کی تردید کرنے والوں کو ملک و قوم کا دشمن ٹھہرانا بھی آزادی، آزادئ صحافت کی آڑ میں حق کے خلاف اوراق گردانی بھی آزادی اور ان اوراق کی سیاہی کو قرآن وسنت کی روشنی سے مٹانے والوں کو غیرمہذب قرار دینا بھی آزادی ہے۔ سو آج ہر خلافِ شرع امر کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہوئے آزادی کا جشن زوروشور سے منایا جارہاہے جب کہ حقیقی آزادی جس کے بارے میں اللہ فرماتاہے! {{ولقد بعثنا فی کل آمة رسولا آن اعبدواللہ واجتنبوا الطاغوت}} یعنی مسلمانوں کی حقیقی آزادی کفر وطاغوت سے بیزاری اختیار کرکے ایک اللہ کی غلامی میں آنے میں ہے) سے یہ قوم کوسوں دور ہے کہ حقیقی آزادی میں جان پر کھیل کر دفاع ِدین و ملت مضمر ہے۔ جب مشرکینِ مکہ روزروشن کی طرح عیاں تعلیماتِ نبوی کو بر ملا ٹھکرانے لگیں تو اللہ تعالی اس بے بنیاد اعتراض کی وجہ سے اپنے بندوں کو آگاہ فرماتے ہیں کہ اس انکار کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ،لیکن چونکہ یہ اپنے آباء کی غلامی میں آکر کفرکی راہ پر چلنے لگیں جس کی وجہ سے یہ ان جانوروں کے زمرہ میں آگئے ہیں جو سوائے ہانک پکار کے کچھ نہیں سنتے ۔(البقرہ) آج اُمتِ مسلمہ کے درد کو بالائے طاق رکھ کر جانوروں کی مانند صرف ہانک اور پکارپر آزادی کا جشن منایا جارہا ہے جو درحقیقت آزادی نہیں بلکہ غلاموں کی غلامی کی ایک مثال قائم کی جارہی ہے ۔ اے اُمتِ مسلمہ کے نوجوانو! قرآن کی صدائیں پکار پکار کے ہمیں بلارہی ہیں! * {{آلم یان للذین آمنواآن تخشع قلوبھم لذکراللہ ومانزل من الحق ،ولایکونوا کا لذین اُوتواالکتب من قبل فطال علیھم الامد فقست قلوبھم،وکثیر منھم فسقون}} ترجمہ : کیا اُن کے لئے اب بھی وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کے ذکر کے لئے اور جو حق اُترا ہے ،اُس کے لئے پسیج جائیں،اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ بنیں جن کو پہلے کتاب دی گئی تھی ،پھر اُن پر ایک لمبی مدت گذر گئی،اور اُن کے دل سخت ہوگئے ،اور آج اُن میں سے بہت سے نافرمان ہیں۔ آئیے اُن سرفروشانِ اسلام کی صفوں میں شامل ہوں جو ربّ ذوالجلال سے حقیقی آزادی کے لئے اپنی جانوں کا سودا کر کے باطل کی غلامی کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ {{ آللھم آحینا علی ملةِ ابراهيم وآمتنا علی ذالک}} (عبدالمحسن خراسانی) ہماری ویب سائٹ https://www.umarmediattp.net ہمارا ٹیلی گرام بوٹ چینل https://t.me/nashir_um1_bot